ایک شخص ذبح کی ہوئی مرغی لے کر مرغی فروش کی دکان پر گیا اور کہا، “بھائی، ذرا اس مرغی۔۔۔

ایک شخص ذبح کی ہوئی مرغی لے کر مرغی فروش کی دکان پر گیا اور کہا، “بھائی، ذرا اس مرغی کی بوٹیاں بنا دو۔
مرغی فروش نے کہا، “مرغی رکھ کر چلے جاؤ اور آدھے گھنٹے بعد آ کر لے جانا۔”
اتفاق سے شہر کا قاضی اسی دکان پر آ گیا اور دکاندار سے بولا، “یہ مرغی مجھے دے دو۔”
دکاندار نے کہا، “یہ مرغی میری نہیں، کسی اور کی ہے، اور میرے پاس ابھی کوئی دوسری مرغی بھی نہیں جو آپ کو دے سکوں۔”
قاضی نے کہا، “کوئی بات نہیں، یہی مرغی مجھے دے دو۔ جب اس کا مالک آئے تو کہنا کہ مرغی اُڑ گئی۔”
دکاندار نے حیرت سے کہا، “ایسا کیسے کہہ دوں؟ اس شخص نے خود مرغی ذبح کی تھی، پھر ذبح شدہ مرغی کیسے اُڑ سکتی ہے؟”
قاضی نے کہا، “جو میں کہتا ہوں، غور سے سنو! بس یہی مرغی مجھے دے دو اور اس کے مالک سے یہی کہنا کہ تیری مرغی اُڑ گئی۔ وہ زیادہ سے زیادہ تمہارے خلاف مقدمہ لے کر میرے پاس ہی آئے گا۔”
دکاندار نے کہا، “اللہ سب کا پردہ رکھے” اور مرغی قاضی کو تھما دی۔
قاضی مرغی لے کر چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد مرغی کا مالک واپس آیا اور دکاندار سے پوچھا، “مرغی کاٹ دی؟”
دکاندار نے کہا، “میں نے تو کاٹ دی تھی، مگر آپ کی مرغی اُڑ گئی۔”
مرغی کے مالک نے حیرانی سے پوچھا، “بھلا وہ کیسے؟ میں نے خود اسے ذبح کیا تھا، وہ اُڑ کیسے سکتی ہے؟” دونوں میں پہلے نوک جھونک شروع ہوئی، پھر بات جھگڑے تک جا پہنچی۔ آخر مرغی کے مالک نے کہا، “چلو، عدالت میں قاضی کے پاس چلتے ہیں۔” اور دونوں عدالت کی طرف چل پڑے۔
عدالت جاتے ہوئے راستے میں انہوں نے دیکھا کہ دو آدمی لڑ رہے ہیں، ایک مسلمان اور دوسرا یہودی۔ جھگڑا چھڑانے کی کوشش میں دکاندار کی انگلی یہودی کی آنکھ میں لگ گئی، جس سے یہودی کی آنکھ ضائع ہو گئی۔ لوگوں نے دکاندار کو پکڑ لیا اور کہا کہ اسے عدالت لے کر جائیں گے۔ اب دکاندار پر دو مقدمے بن گئے۔
لوگ دکاندار کو لے کر جب عدالت کے قریب پہنچے تو وہ خود کو چھڑا کر بھاگنے میں کامیاب ہو گیا۔ لیکن لوگوں کے پیچھا کرنے پر وہ قریبی مسجد میں داخل ہو کر اس کے مینار پر چڑھ گیا۔ جب لوگ اسے پکڑنے کے لیے مینار پر چڑھنے لگے تو اس نے چھلانگ لگا دی اور ایک بوڑھے آدمی پر گر گیا، جس سے وہ بوڑھا مر گیا۔
اب بوڑھے کے بیٹے نے بھی لوگوں کے ساتھ مل کر دکاندار کو پکڑ لیا اور سب اسے لے کر قاضی کے پاس پہنچ گئے۔
قاضی نے دکاندار کو دیکھ کر ہنس پڑا، کیونکہ اسے مرغی یاد آ گئی، لیکن باقی دو مقدمات کا اسے علم نہیں تھا۔ جب قاضی کو تینوں مقدمات کے بارے میں بتایا گیا تو اس نے سر پکڑ لیا۔ پھر چند کتابیں الٹ پلٹ کر کہا، “ہم تینوں مقدمات کا الگ الگ فیصلہ سناتے ہیں۔” سب سے پہلے عدالت میں مرغی کے مالک کو بلایا گیا۔
قاضی نے پوچھا، تمہارا دکاندار پر کیا دعویٰ ہے؟
مرغی کا مالک بولا، جناب، اس نے میری مرغی چرا لی۔ میں نے خود اسے ذبح کر کے اسے دی تھی، یہ کہتا ہے کہ مرغی اُڑ گئی۔ قاضی صاحب! مردہ مرغی کیسے اُڑ سکتی ہے؟
قاضی نے کہا، “کیا تم اللہ اور اس کی قدرت پر ایمان رکھتے ہو؟
مرغی کا مالک: “جی ہاں، کیوں نہیں، قاضی صاحب!”
قاضی: “کیا اللہ تعالیٰ بوسیدہ ہڈیوں کو دوبارہ زندہ کرنے پر قادر نہیں؟ تمہاری مرغی کا زندہ ہو کر اُڑنا بھلا کیا مشکل ہے؟”
یہ سن کر مرغی کا مالک خاموش ہو گیا اور اپنا کیس واپس لے لیا۔
قاضی نے کہا، “دوسرے مدعی کو لاؤ۔” یہودی کو پیش کیا گیا۔ اس نے عرض کیا، “قاضی صاحب، اس نے میری آنکھ میں انگلی ماری، جس سے میری آنکھ ضائع ہو گئی۔ میں بھی اس کی آنکھ میں انگلی مار کر اس کی آنکھ ضائع کرنا چاہتا ہوں۔”
قاضی نے تھوڑی دیر سوچ کر کہا، “مسلمان پر غیر مسلم کی دیت نصف ہوتی ہے۔ اس لیے پہلے یہ مسلمان تمہاری دوسری آنکھ بھی پھوڑے گا، اس کے بعد تم اس کی ایک آنکھ پھوڑ دینا۔”
یہودی نے کہا، “بس رہنے دیں، میں اپنا کیس واپس لیتا ہوں۔”
قاضی نے کہا، “تیسرا مقدمہ پیش کیا جائے۔”
مرنے والے بوڑھے کا بیٹا آگے بڑھا اور عرض کیا، “قاضی صاحب، اس نے میرے باپ پر چھلانگ لگائی، جس سے وہ مر گیا۔”
قاضی نے تھوڑی دیر سوچ کر کہا، “ایسا کرو کہ تم لوگ اسی مینار پر جاؤ اور مدعی اس مینار پر چڑھ کر اس مدعا علیہ (مرغی فروش) پر اسی طرح چھلانگ لگا دے، جس طرح اس نے تمہارے باپ پر چھلانگ لگائی تھی۔”
نوجوان نے کہا، “قاضی صاحب، اگر یہ دائیں بائیں ہو گیا تو میں زمین پر گر کر مر جاؤں گا۔”
قاضی نے کہا، “یہ میرا مسئلہ نہیں، میرا کام انصاف کرنا ہے۔ تمہارا باپ دائیں بائیں کیوں نہیں ہوا؟”
یہ سن کر نوجوان نےبھی اپنا دعویٰ واپس لے لیا۔
نتیجہ: اگر آپ کے پاس قاضی کو دینے کے لیے مرغی ہے تو قاضی آپ کو بچانے کا ہر ہنر جانتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *