
قربانی یا ایک دھوکہ : راولپنڈی کی ایک مصروف گلی میں، ساٹھ سالہ بزرگ خرم دین صاحب اپنی بوسیدہ سائیکل کے ساتھ دو خوبصورت بکرے لیے کھڑے تھے۔
قربانی یا ایک دھوکہ
راولپنڈی کی ایک مصروف گلی میں، ساٹھ سالہ بزرگ خرم دین صاحب اپنی بوسیدہ سائیکل کے ساتھ دو خوبصورت بکرے لیے کھڑے تھے۔ وہ بکرے جنہیں انہوں نے پورا سال پیار سے پالا، خود اپنے ہاتھوں سے چارہ دیا، بیماریوں سے بچایا، اور سردی گرمی میں ان کی خدمت کی۔ ان کی نیت صاف تھی — قربانی کے جانور تیار کیے تھے، تاکہ بیچ کر تھوڑا رزق کما سکیں، اور باقی پیسوں سے عید کی خوشیاں سمیٹ سکیں۔
اسی دوران ایک سفید کپڑوں میں ملبوس، لمبی داڑھی والا شخص ان کے قریب آیا۔ لہجہ انتہائی نرم اور دینی، چہرے پر نور سا، باتوں میں قرآن و سنت کی خوشبو۔
کہنے لگا:
“بابا جی! آپ کے بکرے بہت اچھے لگ رہے ہیں۔ میں اپنی قربانی کے لیے یہ دونوں لینا چاہتا ہوں۔”
خرم دین نے قیمت بتائی: “ایک لاکھ پینتیس ہزار۔”
اس شخص نے فوراً جیب سے نوٹ نکالے، گنے اور بزرگ کے ہاتھ میں تھما دیے۔
“اللہ آپ کو جزا دے، بہت خوبصورت بکرے ہیں، واقعی قربانی کے لائق!”
بزرگ خوش ہو گئے۔ اللہ کا شکر ادا کیا اور دل میں سوچا:
“کیا نیک لوگ ہیں، نہ مول تول کیا، نہ شک کیا، شکر ہے، محنت رنگ لے آئی۔”
لیکن…
جب وہ تھوڑی دیر بعد محلے کی دکان پر گئے اور پیسے نکالے — دکاندار نے نوٹ دیکھ کر ایک لمحہ رک کر کہا:
“بابا جی، یہ تو سارے نقلی نوٹ ہیں…”
پاؤں تلے سے زمین نکل گئی۔
بزرگ سڑک کنارے بیٹھ گئے۔ آنکھوں میں آنسو، دل میں تکلیف، اور زبان پر صرف ایک فقرہ:
“میں نے تو قربانی کے جانور پالے تھے، کسی کے دھوکے کا ذریعہ بننے کو نہیں۔”
قربانی صرف جانور ذبح کرنے کا نام نہیں۔
اگر حرام مال سے، جھوٹ، فریب، اور دھوکے سے جانور خریدا جائے —
تو وہ صرف گوشت ہے، عبادت نہیں۔
ایسا نہ ہو کہ ہم قربانی کا گوشت تو لوگوں میں بانٹیں،
مگر ہمارے اعمال کا خون عرش پر چیخ رہا ہو۔
اللّٰہ ہمیں دیانتداری، سچائی، اور خالص نیت کے ساتھ عبادات ادا کرنے کی توفیق دے۔
آمین
Leave a Reply